اسراٸیل کا غیر قانونی وجود اور پاکستان
بلاگ :- سیداظہارباقر
“اسراٸیل کا غیر قانونی وجود اور پاکستان”
فلسطین یہودیوں ، مسلمانوں اور عساٸیوں کے لٸے بہت اہم ملک ہے۔ فلسطین کا دارلحکومت بیت المقدس ہے جیسے یہودی اور اسراٸیلی یروشلم کے نام سے جانتےہیں
فلسطین کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، اس ملک پر ماضی میں قدیم مصریوں، کونانیوں،اسراٸیلیوں، عربوں ، یونانیوں، بازرتینیوں، رومانیوں اور اہل فارس نے حکومت کی ہے۔ سن 638 تک 640 تک مسلمانوں نے تمام فلسطین پر قبضہ کر لیاتھا، سن 1095 میں اہل یورپ کو خیال آیا کہ ارضِ مقدس کو مسلمانوں سے آزاد کروایا جاٸے، اگلے سال ہی انہوں نے پہلی صلیبی جنگ کا آغاز کر دیاتھا۔ سن 1291 میں صلیبی جنگیں ختم ہو گٸی،پھر1516 میں اسے عثمانی ترکوں نے فتح کیا جو جنگ عظیم اول تک اس ملک پر قابض رہے۔
18ویں صدی کے اول میں یہاں یہودیوں کی ایک جنونی تنظیم صیہونی تحریک (Zionist Movement) کا قیام عمل لایا گیا جس کا مقصد فلسطین ریاست میں اسراٸیل کے وجود کو قاٸم کروانا تھا، جنگ عظیم اول کے دوران انگریزوں نے یہاں فوجی حکومتیں قاٸم کرواٸیں، انگریزوں ہی کے زمانے سے یہاں یہودیوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی شروع کروایا گیا،جنونی صیہونی تحریک کے مقصد کی تکمیل کے لیے یورپی ممالک سے یہودیوں کو دھڑا دھڑ لایا جانے لگا۔
یاد رہے آڈولف ہٹلر کو تاریخ میں 20 ویں صدی کے بدترین فوجی آمر کے طور پر جانا جاتا ہے، 2 اگست 1934 کو جرمنی کے صدر وون ہنڈن برگ کا انتقال ہو گیا اس کے انتقال کے محض ایک گھنٹے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ صدر کا عہدہ بھی چانسلر کے عہدے میں ضم کر دیا گیا ہے اور یہ کہ آڈولف ہٹلر نہ صرف سربراہ مملکت ہوگا بلکہ مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہو گا۔ اب اس کے بعد ہٹلر کی نظر میں صرف دو مقاصد تھے، پہلا مقصد اپنے ملک جرمنی کی خارجہ پالیسی سے متعلق تھا وہ 1918 میں جرمنی کی شکست اور تذلیل کا دھبہ دور کرنا چاہتا تھا اور جرمنی کا اعتماد دنیا میں دوبارہ بحال کرنا چاہتا تھا۔ اس کا دوسرا مقصدد یہودیوں سے متعلق تھا کہ وہ ایسے قوانین بناٸے گا جو کسی بھی یہودی کو جرمنی میں شہریت سے محروم کر سکتے تھے۔ یہودیوں اور جرمنوں کے درمیان شادیوں پر پابندی عاٸد کر دی گی اور یہودیوں کو ان کے عہدوں سے بر طرف کر دیا گیا ان کو ووٹ کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا۔ قصہ مختصر ہٹلر نے یہودیوں پر مظالم کی اتہا کر دی ان کا قتل عام کیا آج اس قتل عام کو ہولوکاسٹ کے نام سے یادرکھا جاتا ہے ایک اندازے کے مطابق ہٹلر نے 60 لاکھ یہودیوں کو بے دردی سے قتل کیا ۔ اس کے بعد سے یہودی دنیا بھر میں در بدر ہو گے ان کو کوٸی ملک اپنے ساتھ رہنے کو جگہ تک نہ دیتا تھا۔ اسی لیے ان کو خاص مقصد کے طور پر مشرق وسطی میں لاکر فلسطین کے اردگرد جگہ دلواٸی گٸی جس کا ناجاٸیز فاٸدہ اٹھاتے ہوۓ یہودی اب غیر قانونی طورپر پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔
منصوبہ بندی کے مطابق یہودیوں کو مشرق وسطی میں لانے کے لیے اور ان کو مستقل جگہ مہیا کروانے کے لیے چار مراحل میں تقسیم کیا گیا ، پہلے مرحلہ 1946 میں یورپی اور امریکی یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے پر آکسایا گیا تھا۔ دوسرے مرحلے 1947 میں عالمی سپرپاور طاقتوں کو اس مرحلے میں امداد حاصل کرنے کے لٸے ان تک رساٸی حاصل کی گی، جس کے بعد عالمی طاقتوں نے اس خطے کو جنگ کی طرف دھکیلنے میں کو کثر نہ چھوڑی ۔ تیسرے مر حلے 1967 میں فلسطینیوں سے ان کی ملکیتی زمینیں خریدنے کےلیے منصوبہ بنایا گیا پیسوں کا لالچ دے کر کچھ فلسطینیوں سے ان کی زمین خرید لی وقت گزرتے ساتھ زمینیں خریدتے رہے اور مال و دولت کا بے جا استعمال کرتے رہے جس کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جا رہا تھا۔جبکہ چوتھے مرحلے 2005 میں فلسطین کی سر زمین پر پُرتشدد تحریک کو شروع کر دیا گیا جس میں طاقت کا استعمال کر کے فلسطینیوں کو ان کے گھر سے بے گھر کر دیا گیا۔ اسی طرح عرصہ دراز سے یہودی طاقت کا استعمال کرتے ہوۓ اپنی آباد کاری کو بڑھاتے چلے گے اور اب بیت المقدس پر ان کا مکمل کنٹرول ہو چکا ہے جس کو انہوں نے یروشلم کا نیا نام دے ڈالا ہے اپنے پھیلتے ہوۓ ہسار کو انہوں نے اسراٸیلی ریاست یا ملک میں شامل کر لیا ، اسراٸیل کو بطور ملک 1948 میں UN پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا، یہودیوں کے ظلم و ستم اور قتل و غارت سے تنگ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کر چکی تھی جو تاحال جاری ہے۔
مشہور اسراٸیلی تاریخ دان Ilon Pappe اپنی کتاب ” The Ethnic Cleansing of Palestine“ میں لکھتے ہیں ”اس میں کوٸیm,شک نہیں کہ فلسطینیوں کا قتل عام اور ان کو جبری طور پر گھروں سے نکالنا ہولوکاسٹ جتنا ہی سنگین جرم ہے، اگر ہم اسراٸیل کے امن کو سلامتی چاہتے ہیں تو ہمیں فلسطینیوں سے کی جانے والی اس ظلم پر معافی مانگنی ہو گی۔“
تاریخ میں اس بڑی جبری بے دخلی کو ”ناقبے“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسراٸیل کے اس طرح سے وجود میں آنا اس کا بیت المقدس تک پھیلاو کے خلاف آج بھی دنیا بھر میں مسلمان مظاہرے کر رہے ہیں لیکن UN اسراٸیل کے خلاف تا حال کوٸی ایکشن نہ لے سکا۔ UN کے رویے پر پنجابی میں تنقیدی الفاظ یاد آرہے ہیں کہ ”کتی چوراں نال ملی ہوٸی ہے؟“
اسراٸیل کے فلسطینیوں سے ظلم کے خلاف اسراٸیل اور حزب اللہ کی 2006 میں جنگ بھی ہو چکی ہے جنگ کے ذریعے اسراٸیل نے لبنان کو تباہ کرنے کے لیے پوری پوری کوشیش کر لی لیکن اسراٸیل اپنے مشن میں ناکام رہا اسے پانچ ہفتوں بعد ہی مجبوراً اپنی فوج پیچھے ہٹانا پڑی۔
اسراٸیل کے غیر قانون وجود کو عرب ممالک سمیت دنیا بھر کے 31 ممالک تسلیم نہیں کرتے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
عرب ممالک میں اسراٸیل کا سب سے بڑا حریف ایران ہے جس نے سرکاری طور پر اسراٸیل کو ختم کرنے کو اپنی سرکا پالیسی میں شامل کیا ہوا ہے، ایرانی اسلامی انقلاب کے داعی امام خمینی بھی اسراٸیل کے وجود کو مسلمانوں کےقلب پر سیاہ داغ کی طرح محسوس کرتے تھے۔ یہ امام خمینی ہی کی شخصیت تھی کہ جس نے دنیا پر واضح طور عیاں کیا کہ اسرائیل ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے ، اس کام کے لئے امام خمینی نے اپنے خطابات اور فرامین میں بھرپور انداز سے پیغامات دئیے حتیٰ کہ دنیا کے دیگر ممالک کے رہنماؤں کے لکھے جانے والے خطوط اور خط و کتابت میں بھی امام خمینی کی طرف سے مسئلہ فلسطین کے لئے ہمیشہ بے حد اسرار پایا جاتا تھا۔امام خمینی نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا،اور پوری دنیا میں اس روز مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے کا حکم صادر فرمایا۔ یوم القدس کے بارے میں امام خمینی کا کہنا تھا کہ یہ ایسا دن نہیں کہ جو فقط قدس کے ساتھ مخصوص ہو، بلکہ مستکبرین کے ساتھ مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ منافقین اور وہ لوگ جن کی پس پردہ بڑی طاقتوں کے ساتھ آشنائی اور اسرائیل کے ساتھ دوستی ہے، وہ یوم القدس سے لاتعلق رہتے ہیں یا قوموں کو مظاہرہ نہیں کرنے دیتے۔
اسی لیے اسراٸیلی موساد مسلمانوں میں امام خمینی کے ماننے والوں سے ہمشہ خوف زدہ ہی رہی ہیں وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو ان کو اپنا دشمن ہی سمجھتے آرہے ہیں پاکستان ، لبنان، عراق ، شام اور ترکی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں اسراٸیل مخالف جذبات زیادہ پاۓ جاتےہیں۔
پاکستان میں شیعہ مسلک کے لوگوں کا قتل کچھ اہم افراد اسراٸیلی سازش سے بھی جوڑتے نظر آتے ہیں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن پاکستان کے بانی ڈاکٹر محمد علی نقوی، علامہ سید عارف حسین الحسینی جیسے عالم با عمل جیسے افراد ان کے ساتھ بہت سے دوسرے بے گناہ افراد اسی سازش کی وجہ سے جان سے چلے گے فرقہ واریت جسے عمل کو ہمیشہ سے پاکستان کے امن کو خراب کرنے کے لیے دشمن ممالک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے آۓ ہیں فرقہ واریت ہی کے ذریعے پاکستان میں ہر مسالک سے افراد کو بے گناہ مارا گیا۔
14 مئی 1948 کو ”اسرائیل “نامی ایک غاصب صیہونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس یہودی ریاست کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد بھی بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے متعدد بار اس کی شدید مخالفت کی ۔ یہ مخالفت ، مخالفت برائے مخالفت نہ تھی بلکہ اس کے پیچھے قائد ِ اعظم کا ایک نظریہ تھا ۔
غاصب اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد قائد اعظم نے ایک پالیسی ساز بیان دیا کہ جس میں آپ نے فرمایا کہ ’’اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور پاکستان اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ “1947 میں اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گریون نے قائداعظم محمد علی جناح کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے متعلق ٹیلی گرام بھیجا تو قائدِ اعظم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ قائد کے اس رویے نے استعمار اور ان کے حواریوں کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیت المقدس اور ارضِ فلسطین پر غاصبوں کے قبضے کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے حوالے سے بانی پاکستان کی طرح پاکستانی عوام کے بھی خصوصی جذبات ہیں اور بابائے قوم کے نظریات اور پاکستان کے غیور عوام کے احساسات و جذبات کاخیال پاکستان کی ہر حکومت نے رکھا ہے اور بیرونی دباو کے باوجود غاصب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے اور آئندہ بھی قائدِ اعظم کے اس نظریے کی حفاظت کی جائے گی کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جسے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا پاکستان اسراٸیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطینی مسلمانوں کو ان کا جاٸیز حق نہ مل جاۓ۔
Syed Izhar Baqir
Comments
Post a Comment