مجلس اقوام سے اقوام متحدہ تک
“مجلس اقوام سے اقوام متحدہ تک”
پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس کے فوراً بعد برطانیہ، فرانس، جرمنی، ڈنمارک ناروے اور سویڈن میں ایسی جماعتیں معرض وجود میں آنے لگیں جن کا مقصد جنگ کی روک تھام کرنا اور لوگوں کو امن کی اہمیت کا احساس دلانا تھا۔ ساتھ ہی ایک ایسی عالمی تنظیم کے قیام کی تحریک بھی شروع ہوٸی جو بقائے امن کے لیے مربوط کوشش کر سکے۔ اسی طرح 28 جون 1919 کو پیرس کے ورسیلز محل میں امن کانفرنس بلاٸی گی کانفرنس میں طے پانے والے معاہدے کی کل 435 دفعات تھیں، جن میں پہلی 26 دفعات مجلس اقوام کے بارے میں تھیں۔ جس سے مجلس اقوام معاہدہ ورسیلز کاناقابل تسخیر حصہ بن گی۔ چنانچہ ورسائی کے معاہدہ امن کی بنیاد پر 10 جنوری 1920ء کو ’’مجلس اقوام‘‘ (Th League of Nation )قائم ہوئی۔ ابتدا میں اس ادارے میں 28 اتحادی اور 14 غیر جانبدار ممالک شامل ہوئے۔ چناچہ اس میثاق پر 42 ریاستوں نے دستخط کیۓ بعد میں ارکان کی تعداد 60 تک پہنچ گئی۔ سینٹ کی عدم توثیق کے باعث امریکہ اس مجلس اقوام کا ممبر نہ بن سکا، روس اور افغانستان 1934ء میں اس کے رکن بنے۔
اس وقت مجلس اقوام کا صدر مقام جینواء قرار پایا اور اس کا سیکریڑی سر جیمس ارک ڈرمنڈ تھے۔
ہر آزاد ریاست جس کو مجلس کے میثاق سے اتفاق ہو وہ اس کا ممبر بن سکتی تھی، دستوری طور پر مجلس تین اداروں پر مشتمل تھی۔ جو ساخت کے لحاظ سے اسمبلی ، کونسل اور سکیرٹریٹ پر مشتمل تھی۔ اس میں انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس اور ورلڈ ہیلتھ آرگناٸزیشن (WHO) جیسے ادارے ذیلی اداروں کے طور پر شامل تھے۔ ان اداروں کی اعانت کے لٸے بعض دوسری ذیلی تنظیمیں اور مستقل یا عارضی کمیشن بھی تھے۔
اسمبلی مجلس کی اعلی ترین باڈی ہوتی تھی، آزاد اور نو آبادیاتی مملکتین اس کی ممبر بن سکتی تھیں۔ کونسل مجلس اقوام کی انتظامیہ تھی ابتداءمیں پانچ بڑی طاقتیں امریکہ ،برطانیہ ، فرانس، اٹلی جاپان کو اس کی مستقل رکنیت دینے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن امریکہ کے شامل نہ ہو سکنے سے مستقل اراکین کی تعداد چار رہ گی وقت کے ساتھ ساتھ مجلس اقوام کے مستقل اور عارضی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہی جیسے1926 میں جرمنی کو مستقل رکنیت دی گی، 1934 میں روس اور مستقل رکنیت کی حثیت سے شامل ہوا لیکن اٹلی علحدہ ہو گیا، اس طرح اراکین کی تعداد تین ہی رہی مگر عارضی ممبران کی تعداد تیرہ (13) کر دی گی۔
منشور کے مطابق ہر رکن ملک حلف لیتا تھا کہ وہ کسی دوسرے رکن ملک سے تنازع کی صورت میں پر امن ذ رائع سے مفاہمت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ اور مصالحت اور مفاہمت کے تمام امکانات مسدود ہونے کے بعد ’’نو ماہ کے وقفے سے ‘‘ جنگ کا راستہ اختیار کر سکے گا۔ خلاف ورزی کی صورت میں انجمن کے دوسرے تمام رکن ممالک جارح ملک سے اقتصادی اور مالی روابط قطع کر لینے کے پابند تھے۔ جمیعت اقوام کو انتظامی اختیارات حاصل نہ تھے۔ اور نہ وہ رکن ممالک کی حکمت عملیوں کی تدوین و ترتیب میں کوئی عمل دخل رکھتی تھی۔ البتہ بین الاقوامی تنازعات کے سلسلے میں بیچ بچاؤ کرانے، رکن ممالک کو جنگ سے محفوظ رکھنے اور امداد باہمی کی بنیاد پر دفاع کا انتظام کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔کونسل کو ابتدا میں متحارب ملکوں میں مفاہمت کرانے میں کامیابی ہوئی۔ مثلاً 1921ء میں جب یو گو سلاویہ نے البانیہ اور 1925ء میں بلغاریہ نے یونان پر حملہ کیا تو کونسل نے ہی بچ بچاؤ کرایا۔ اسی طرح جب سیویڈن اور فن لینڈ کے درمیان جزیرہ ہالینڈ کے بارے میں اور ترکی اور عراق میں سرحدی تنازع پیدا ہوا تو کونسل کی کوششوں ہی سے مفاہمت ہوئی۔
مجلس اقوام کے اجلاس اس کے مکمل خاتمے تک باقاعدگی سے ہوتے رہے لیکن ان اجلاسوں میں شریک ممالک کی حثیت براٸے نام تھی ، اور کوٸی سرکردہ ملک مجلس کے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتا تھا۔
1919 کے اواٸل میں مجلس کا 105واں اجلاس ختم ہوا تو یہ طے ہوا کہ آگلا اجلاس 8 ستمبر 1939 کو ہو گا، ستمبر 1939 میں جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا اور 3 ستمبر کو برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اس طرح مجلس کا آخری باضابطہ طے شدہ اجلاس نہ ہو سکا اس کے بعد سے مجلس کا شیرازہ بکھر گیا فنڈز میں شدید کمی واقع ہو گی مجلس کو اپنے سیکریڑیٹ کے ممبران کی تعداد سو سے بھی کم پڑ گی۔
31 اگست 1945 کو مجلس کے سیکرٹری جنرل سیان لیسٹر نے استعفی دے دیا جس سے غیر سرکاری طور پر مجلس کی عاملہ ختم ہو گی، 8 اپریل 1946 کو مجلس کا اختتامی اجلاس ہوا اس اجلاس کے آخری الفاظ یہ تھے۔۔۔
”مجلس اقوام مرگی اقوام متحدہ زندہ باد“
پہلی جنگ عظیم 1914-1918 کےدوران تقریبا ایک کروڑ افراد ہلاک ہوۓ اور بے شمار زخمی ہوۓ، ایک اندازے کے مطابق چار کھرب ڈالر کا نقصان ہوا اور ہزاروں شہر قصبے اوردیہات تباہ ہوگے۔مجلس اقوام کی تشکیل کے بعد یہ امید پیدا ہوگی تھی کہ اب دنیا کو پہلی عالمی جنگ جیسی تباہ کاریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گالیکن یہ امید اس وقت خاک میں مل گی جب ستمبر 1939 میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گی۔ دوسری عالمی جنگ پہلی عالمی جنگ سے بھی زیادہ تبا کاریاں اور ہولناکیاں اپنے ساتھ لے کر آٸی۔ اس لیۓ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی ایک ایسی بین الاقوامی تنظیم بنانے کی کوشیش شروع ہو گٸیں جس میں مجلس اقوام والی خامیاں نہ ہوں۔ اسی طرح چند عالمی رہنماوں اور ملکوں کے اعلانات اور کانفرنسیں کے بعد 24 اکتوبر 1945 کو سرکاری طور پر اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آ گیا۔جنکہ پانچ بڑی طاقتوں (امریکہ، برطانیہ ، فرانس ، روس اور چین ) اور دستخط کرنے والی دوسری اقوام کی حکومتوں کی اکثریت نے منشور کی توثیق کر دی یہی وجہ ہے کہ ہر سال 24 اکتوبر کو یوم اقوام متحدہ منایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے چھ بڑے ادارے جنرل اسمبلی ،سلامتی کونسل ، اکنومک اینڈ سوشل کونسل ،ٹرسٹشپ کونسل ، انٹرنل نیشنل کورٹ آف جسٹس ، اور سیکریڑیٹ شامل ہیں۔
اکنومک اینڈ سوشل کونسل میں 25 ایجنسیاں بھی کام کررہی ہیں مثلاء ورلڈ ہیلتھ آرگناٸزیشن ، یونیسکو ، یونیسیف اور یو این ڈی پی بھی شامل ہیں ان سمیت باقی تمام ایجنسیاں ہر سال کی رپورٹ کونسل کو پیش کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کا سب سے اہم کام اقوام عالم کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا ہے ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ جنگ کی امکانات کم سے کم ہو جاٸیں لیکنطاقوام متحدہ کو حال ہی میں آزربٸیجان اور آرمینا کی جنگ میں واضع کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جنگ جیسے حالات ختم ہو سکیں اور اقوام متحدہ کا وجود سہی معانی میں برقرار رہے۔
۔
Comments
Post a Comment